ارشدشریف کی موت، کینیا کے صحافیوں نے پولیس رپورٹ پر انگلیاں اٹھا دیں

ارشدشریف کی اچانک اس طرح موت سے جہاں سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم ہے وہیں کینیا پولیس کی رپورٹ نے تحقیقات کو نئے رُخ پر موڑ دیا ہے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ کسی بچے کے اغوا کی اطلاع پر ناکہ بندی کی گئی تھی۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ناکہ بندی پر ارشد شریف کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا گیا مگر وہ رُکے نہیں بلکہ ان کے ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی جس پر مقامی پولیس نے گولی چلا دی جس کے نتیجے میں ارشد شریف جاں بحق ہو گئے اور ڈرائیور زخمی ہوا۔

پولیس کے اس غیر ذمہ دارانہ انداز اور طریقے پر کینیا کے صحافیوں نے سوال اٹھا دیئے ہیں۔ خاتون صحافی ڈاکٹر روزلن اکومبے کا کہنا ہے کہ کسی کو قتل کر دینا اور پھر یہ کہنا کہ پہچاننے میں غلطی ہوئی کیا یہ مناسب ہے؟

انہوں نے ارشدشریف کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پولیس کے ایس ایس یو گروپ میں قاتل بھرتی کر رکھے ہیں؟ ان کی بھرتی کا کیا معیار ہے؟

صحافی ایلوئیڈ کیبی کا کہنا ہے کہ پولیس رپورٹ میں بہت سی خامیاں ہیں سب سے پہلے نمبر پر یہ گاڑی کی چوری کا کیس تھا جبکہ جو گاڑی ارشدشریف کے استعمال میں تھی اس کا اور چوری شدہ گاڑی کے نمبر کا فرق تھا۔ اور جس بچے کے اغوا کا کہا جا رہا ہے وہ قتل کے وقت تک بازیاب کرایا جا چکا تھا.

صحافی برائن اوبویا نے کہا کہ ارشد شریف کے جسم پر دو گولیوں کے نشان تھے۔ پاکستانی سفارتخانے کے لوگ موقع واردات پر موجود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ارشدشریف پاکستان کے اعلیٰ حکام کو مطلوب تھے۔ وہ پہلے دبئی میں تھے جہاں ان کا پیچھا کیا جاتا رہا تاکہ وہ کینیا آئیں اور پھر یہاں انہیں غلطی سے مار دیا جائے۔

اس صحافی نے یہ بھی کہا کہ یہ قتل کا واقعہ کوئی اتفاقیہ نہیں تھا وہ ایک ڈاکومینٹری ریلیز کرنے جا رہے تھےجس میں پاکستانی سسٹم کو بےنقاب کیا جانا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ارشدشریف کی گاڑی پر 9 گولیاں لگیں جن میں سے 4 گاڑی کی بائیں جانب لگیں۔ ایک گولی دائیں ٹائر پر لگی۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.