گیلی انگلیوں پر جھریاں کیوں پڑتی ہیں؟طبی ماہرین نے رازبتادیا

اگر آپ پانی میں ایک مخصوص وقت گزاریں تو آپ کی انگلیوں کی جلد میں حیران کن تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ جہاں پہلے انگلیوں کی پوروں پر نازک سے بھنور موجود تھے، وہی جگہ پھر بد نما تہہ در تہہ جھریوں میں بدل جاتی ہے۔ اس حیران کن تبدیلی سے ہم سب ہی واقف ہیں لیکن پھر بھی یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسا صرف ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کی

جلد کے ساتھ ہی ہوتا ہے جبکہ جسم کے دیگر اعضا جیسے پیٹ، ٹانگیں، چہرہ یا پھر کلائی پانی میں رہنے کے باوجود ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔ اس جسمانی پہیلی کو دہائیوں سے سائنسدانوں نے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیادہ تر تو یہی جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ اس کی وجہ کیا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ان کی توجہ کا مرکز یہ سوال بنا کہ اس تبدیلی کا مقصد یا فائدہ کیا ہے۔ اس سے بھی اہم سوال شاید یہ ہے کہ ہماری جلد میں یہ تبدیلی ہماری صحت کے بارے میں کیا بتاتی ہے۔ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت میں پانی میں جلد پر جھریاں پڑنے کے عمل میں ساڑھے تین منٹ لگتے ہیں جبکہ سرد مقامات پر 20 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت میں 10 منٹ لگ سکتے ہیں۔ زیادہ تر تحقیق کے مطابق جلد پر سب سے زیادہ جھریاں پڑنے کا عمل 30 منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ انگلیوں پر جھریاں پڑنا ایک سادہ ردعمل ہے، جس کے دوران انسانی جلد کی سب سے باہر کی تہہ اوسموسس کے ذریعے پانی اندر آنے کی وجہ سے پھول جاتی ہے لیکن 1935 سے ہی سائنسدانوں کو شبہ تھا کہ یہ اتنی سادہ سی بات نہیں۔ طبی ماہرین نے جانچا کہ ایسے مریضوں کی انگلیوں پر جھریاں نہیں پڑتیں جن کو چوٹ لگنے کی وجہ سے ان کی میڈین نامی نس کٹ چکی تھی۔ یہ ایک اہم نس ہوتی ہے جو بازو سے ہاتھ تک جاتی ہے اور اس کا ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ پسینہ آنے اور خون کی شریانوں کے سکڑنے جیسے عمل کو کنٹرول کرتی ہے۔

اس دریافت کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ پانی سے انگلیوں کی پوروں پر پڑنے والی جھریاں دراصل ایک ایسا عمل ہے جس کو انسانی اعصابی نظام یعنی دماغ چلا رہا ہے۔ چند سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انگلیوں پر موجود جھریاں ایسے ہی کام کرتی ہیں جیسے گاڑی کے ٹائر یا جوتے کے نیچے موجود پانی کے گزرنے کے لیے خلا رکھا جاتا ہے۔ ان جھریوں کی موجودگی ایسا خلا بنا دیتی ہے جو انگلیوں اور کسی بھی شے کے درمیان پانی کی موجودگی کو کم کر دیتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کے پاوں اور ہاتھوں کی انگلیوں میں وقت کے ساتھ یہ ارتقائی تبدیلی آئی تاکہ ہم گیلی اشیا یا سطح پر گرفت رکھ سکیں۔ ٹام سملڈرز ایک ارتقائی نیورو سائنسدان ہیں، جنھوں نے نیو کاسل یونیورسٹی کے سنہ 2013 میں ہونے تجربے کی سربراہی کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کیوںکہ اس کی وجہ سے پانی میں بہتر گرفت ہوتی ہے، میری رائے میں اس ارتقا کا تعلق بھی پانی کے اندر اشیا سے چھیر چھاڑ کرنے یا پھر گیلی سطح پر حرکت سے جڑا ہوا ہے۔‘ شاید جھریاں پڑنے کے اس عمل نے ہمارے آباؤاجداد کو گیلے پتھروں پر چلنے یا شاخوں پر گرفت رکھنے میں مدد کی ہو یا یہ متبادل منظر نامہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے سمندری حیاتیات کے شکار میں مدد ملی ہو۔ ٹام سملڈرز کہتے ہیں کہ ’اگر آخر الذکر بات ہے تو شاید یہ تبدیلی صرف انسان تک محدود ہے اور اگر یہ اول الذکر معاملہ ہے تو پھر امکان ہے کہ یہ بندروں، گوریلوں میں بھی یہ تبدیلی رونما ہوئی ہو۔‘ اب تک جلد میں یہ تبدیلی انسان کے قریب ترین سمجھے جانے والے جانوروں جیسے چمپینزی میں دیکھنے کو نہیں ملی لیکن جاپانی ماکاکوئی بندر، جو گرم پانی میں دیر تک نہاتے ہیں، کی انگلیوں میں پانی سے ایسی ہی جھریاں پڑتی ہیں۔

ٹام سملڈرز کے مطابق دیگر پرائمیٹس میں اس تبدیلی کے شواہد کی غیر موجودگی کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اب تک کسی نے اس بات کا مشاہدہ ہی نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس سوال کا جواب اب تک نہیں جانتے۔‘ انسان میں یہ تبدیلی کب وقوع پذیر ہوئی؟ اس سوال سے جڑے چند اشارے موجود ہیں۔ انگلیوں کی پوروں پر پانی سے پڑنے والی جھریاں تازہ پانی کی نسبت نمکیلے پانی میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ نمکیلے پانی نمکیاتی ترتیب اتنی زیادہ متاثر نہیں ہوتی۔ تو شاید یہ وہ تبدیلی تھی جس نے ہمارے آباؤاجداد کو ساحل کی بجائے تازہ پانیوں کے ماحول میں رہنے میں مدد دی ہو۔ لیکن اب تک اس سوال کا کوئی ٹھوس جواب نہیں ملا اور چند لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ ارتقائی تبدیلی کی بجائے صرف اتفاقیہ جسمانی ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس سوال سے جڑی کئی اور پہیلیاں بھی ہیں جیسا کہ خواتین میں جھریاں بننے کا یہ عمل مردوں کی نسبت زیادہ وقت لیتا ہے۔

اور پھر یہ سوال کہ ہماری جلد دس سے بیس منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ اصلی حالت میں بحال کیسے ہو جاتی ہے جبکہ گیلی انگلیوں سے خشک شے پکڑنے میں بظاہر کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں؟ اگر گیلی انگلیوں کی جھریاں پانی میں گرفت بہتر کرتی ہیں اور خشکی میں بھی کوئی نقصان نہیں دیتی ہیں تو پھر ہماری انگلیوں کی پوروں کی جھلیاں مستقل کیوں نہیں؟ اس کی ایک وجہ جلد کی حساسیت ہو سکتی ہے کیوںکہ ہماری انگلی کا کونہ حساس نسوں سے بھرپور ہوتا ہے اور جیسے ہی جلد کی کیفیت تبدیل ہوتی ہے، ہماری چھونے سے محسوس کرنے کی صلاحیت بھی بدل جاتی ہے۔ نک ڈیوس کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگوں کو گیلی انگلیوں کی جھریوں سے چڑ ہوتی ہے کیوںکہ ان کو ایسی حالت میں کسی چیز کو پکڑنا عجیب لگتا ہے۔ اس کی وجہ نفسیاتی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی تفتیش بھی دلچسپ ہو گی۔ اس کے علاوہ ہو سکتا ہے اور ایسے کام ہوں جو ہم جھریوں والی انگلیوں کے ساتھ کم بہتر طور پر کر پاتے ہوں۔‘ لیکن یہ تبدیلی ہماری صحت کے بارے میں بھی حیران کن معلومات فراہم کر سکتی ہے۔ جن افراد کو سوریاسس یا ویٹیلیگو جیسی جلد کی بیماریاں ہوتی ہیں، ان میں یہ عمل زیادہ وقت لیتا ہے۔ سسٹک فائبروسس کے مریضوں میں انگلیوں کے ساتھ ساتھ ہتھیلی پر بھی جھریاں نمودار ہوتی ہیں۔ ذیابیطیس ٹائپ ٹو اور دل کی بیماری میں مبتلا مریضوں میں بھی ایسا کم ہوتا ہے۔ ایسے افراد جن کے ایک ہاتھ میں دوسرے کی نسبت زیادہ جھریاں نمودار ہوں، کے بارے میں ایک تحقیق کے مطابق کہا گیا ہے کہ یہ پارکنسن بیماری کی شروعات کی نشاندہی ہو سکتی ہے کیوںکہ اس کا مطلب ہے کہ ان کا اعصابی نظام جسم کے ایک حصے میں درست طریقے سے کام نہیں کر رہا۔ تو اگرچہ کہ یہ سوال اب تک اپنی جگہ موجود ہے کہ پانی میں انگلیوں پر جھریاں کیوں نمودار ہوتی ہیں، یہ تبدیلی طبی ماہرین کو کئی حیران کن معلومات بھی فراہم کر رہی ہے۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.